اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ460
311۔ کبھی یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ گلہ نہ کرے
کبھی
یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ گلہ نہ کرے
یہ
اور بات ہے اَوروں سے تذکرہ نہ کرے
اسے
کہو کہ بڑے شوق سے ملے لیکن
مجھے
قریب سے دیکھے تو جی برا نہ کرے
ہمی
نے وقت کی دہلیز پر کھڑے ہو کر
اسے
کہا تھا کہ جلدی میں فیصلہ نہ کرے
زمین
سب سے بغل گیر ہو کے پوچھتی ہے
وہ
کون ہے کہ جو مجھ سے معانقہ نہ کرے
نہ
اس کی سڑکیں کشادہ، نہ اس کی گلیاں صاف
تُو
شہرِ ذات میں آئے کبھی خدا نہ کرے
وہ
اپنے آئنہ خانے میں بیٹھ کر مجھ پر
ہنسے
ضرور، مگر اس قدر ہنسا نہ کرے
جھگڑنا
ہو تو جھگڑتا رہے وہ ماضی سے
گزر
رہا ہے جو لمحہ اسے خفا نہ کرے
خدا
نے عقل بھی دی ہے اسے، ارادہ بھی
جو
میری مانے تو ''خوباں'' سے مشورہ نہ کرے
نہ
تیرے پاؤں میں چھالے نہ راہ میں کانٹے
خدا
کبھی تجھے مضطرؔ! برہنہ پا نہ کرے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں