صفحات

جمعہ، 15 جولائی، 2016

321۔ تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں تھی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ473۔474

321۔ تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں تھی


تمہید کی اتنی بھی ضرورت تو نہیں تھی
کچھ اور ہی شے تھی یہ وضاحت تو نہیں تھی

کہتے ہو کہ یہ کوئی شہادت تو نہیں تھی
اور قربِ قیامت کی علامت تو نہیں تھی

اتنا تو کِیا، قتل کا فتویٰ دیا تم نے
حقًّا کہ تمھیں اس کی بھی فرصت تو نہیں تھی

تم کو تو ندامت کا پسینہ بھی نہ آیا
کیا جانیے کیا تھی، یہ ندامت تو نہیں تھی

مقتول نے لکھّی تھی وہ تقدیر لہو سے
لکھنے کی جسے اس کو بھی قدرت تو نہیں تھی

ہاں ہاں تمھیں اس روز بڑی داد ملی تھی
وہ داد مگر دادِ شجاعت تو نہیں تھی

اب قتل کے بعد آئے ہو مقتول سے ملنے
اس طرفہ تکلّف کی ضرورت تو نہیں تھی

ہم نوکِ سناں پر بھی رہے زندہ سلامت
کچھ اس کے سوا جینے کی صورت تو نہیں تھی

سولی پہ بصد ناز ترا نام لیا تھا
واللّٰہ! ہمیں فخر کی عادت تو نہیں تھی

ہم لوگ سرِ دار بھی جی بھر کے ہنسے تھے
ہرچند کہ ہنسنے کی اجازت تو نہیں تھی

کیا جانیے کس طرح اسے دیکھ لیا تھا
اس حسن کی کچھ حدّ و نہایت تو نہیں تھی

رو رو کے گزارا تھا تجھے اے شبِ ہجراں!
شکوہ تو نہیں تھا یہ شکایت تو نہیں تھی

ہم خاک بسر عہدِ اذیّت کے امیں تھے
سوچو تو اذیّت بھی اذیّت تو نہیں تھی

ہم نے جو تہِ دل سے تمھیں دی تھی معافی
احساں تو نہیں تھا وہ عنایت تو نہیں تھی

مضطرؔ کی عیادت کے لیے آئے تھے احباب
ہر چند عیادت کی اجازت تو نہیں تھی

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں