اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ421۔422
284۔ اس
کے دل میں اب بھی احساسِ زیاں کوئی نہ تھا
اس
کے دل میں اب بھی احساسِ زیاں کوئی نہ تھا
وہ
سمجھتا تھا کہ سر پر آسماں کوئی نہ تھا
اس
کا دعویٰ تھا کہ عہدِ عشق میں میرے بغیر
اس
کی تیغِ ناز کے شایانِ شاں کوئی نہ تھا
جھونک
دی تھیں کشتیاں اس نے انا کی آگ میں
اس
کو اب اندیشۂ سود و زیاں کوئی نہ تھا
جل
رہے تھے شہر اور دیہات اس کی آگ میں
اس
بتِ عیّار سا آتش بیاں کوئی نہ تھا
لفظ
گونگے ہو گئے تھے آبرو کے خوف سے
عفّتِ
آواز کا اب پاسباں کوئی نہ تھا
روح
تھی کانٹوں کی ننگی سیج پر لیٹی ہوئی
جسم
دھڑ دھڑ جل رہا تھا اور دھواں کوئی نہ تھا
لوگ
سرکاری مسلماں بن گئے تھے دفعۃً
اس
نرالے فیصلے پر شادماں کوئی نہ تھا
جس
کا دعویٰ تھا' مری کُرسی بڑی مضبوط ہے '
ذکر
اس کا داستاں در داستاں کوئی نہ تھا
جانے
کیوں لوگوں نے اس پر کر لیا تھا اعتبار
اس
کی بزمِ ناز میں کیا بدگماں کوئی نہ تھا
کر
لیا آخر بسیرا اس نے اوجِ دار پر
اس
پرندے کا چمن میں آشیاں کوئی نہ تھا
آئنے
تک تو دبے پاؤں وہ آیا تھا مگر
اس
سے آگے دور تک اس کا نشاں کوئی نہ تھا
اب
گئی رت کی کہانی تھی قریب الاختتام
پھول
اس پت جھڑ میں زیبِ گلستاں کوئی نہ تھا
جا
چکے تھے سب تماشائی گھروں کو لَوٹ کر
ماسوا
مقتول کے وقتِ اذاں کوئی نہ تھا
شہر
میں شاید اُتر آیا ہو دیواروں کے بیچ
دشت
میں تو سایۂ ابرِ رواں کوئی نہ تھا
ایک
سوتیلے کو ہے افسوس مضطرؔ! آج تک
یوسفِ
دوراں کے رستے میں کنواں کوئی نہ تھا
٨٠،١٩٧٩ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں