صفحات

پیر، 18 جولائی، 2016

307۔ ہر کوئی شہر بدر لگتا ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ456

307۔ ہر کوئی شہر بدر لگتا ہے


ہر کوئی شہر بدر لگتا ہے
اب تو اس شہر سے ڈر لگتا ہے

دشت در آیا ہے گھر کے اندر
دشت اب دشت نہ گھر لگتا ہے

مل کے آیا ہے کسی منزل سے
راستہ خاک بسر لگتا ہے

غمِ جاں کو بھی اُٹھا لے ہنس کر
یہ ترا زادِ سفر لگتا ہے

راہ چلتوں سے سنبھل کر ملنا
ان پہ منزل کا اثر لگتا ہے

صبحِ صادق ہے یا کوئی آنسو
کچھ تو اے دیدۂ تر! لگتا ہے

کوئی گزرا نہ ہو منزل بن کر
راستہ زیر و زبر لگتا ہے

اَور بڑھ جاتی ہے لذت اس کی
زخم جب بارِ دگر لگتا ہے

وہ جدھر ہاتھ اُٹھا دے مضطرؔ!
شہر کا شہر ادھر لگتا ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں