اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ532
364۔ آنکھ
سے ٹپکا، لہو بن کر جلا
آنکھ
سے ٹپکا، لہو بن کر جلا
اشک
آخر اشک تھا، گھر گھر جلا
شاہدِ
معنٰی کو پا کر روبرو
ہم
نے دی اظہار کی چادر جلا
راستے
بھر روشنی ہوتی رہی
دل
جلا، جل کر بجھا، بجھ کر جلا
ننگِ
محفل، یادگارِ رفتگاں
رہ
گیا ہے اک پتنگا پَرجلا
معجزہ
تھا آنکھ کی برسات کا
دل
کا دامن بھیگ کر بہتر جلا
راہ
چلتوں کو بھی ہو گا فائدہ
کچھ
دیے دیوار کے اوپر جلا
بانٹ
دے اس آتشِ سیّال کو
پھونک
دے شہروں کو، گھر کے گھر جلا
سحر
باطل ہو گیا اک آن میں
میرے
جلتے ہی وہ جادوگر جلا
ہم
جلیں یا نہ جلیں اس سے غرض
کیوں
ہماری آگ میں مضطرؔ جلا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں