صفحات

جمعرات، 14 جولائی، 2016

327۔ چاند چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ481۔483

327۔ چاند چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار


چاند چھپا، تارے مرجھائے، نرگس ہے بیمار
بوٹا بوٹا جاگ رہا ہے، کلی کلی بیدار

ستلج پار سے ایک مداری کھیل دکھانے آیا
ہاتھ کی پھرتی، آنکھ کا جادو،بندربانٹ کا سایہ

بھیس بنائے، ناچا گایا، سبز باغ دکھلائے
اک تھپکی سے بچّے بالے میٹھی نیند سلائے

دلّی سے اک آندھی اُ ٹھی،جا پہنچی کشمیر
پیر فقیر، بال، نر ناری لٹ گئے بے تقصیر

اک کشمیری٭؎ قید ہے اب سری نگر کے پاس
کیا جانے کیا سوچ رہا ہے تنہا اور اداس

بات بات پہ روٹھنے والے! روٹھ گئی تقدیر
اب بن باسی بال بکھیرے بیٹھا ہے دلگیر

اب مقتول کی گردن ہے اور قاتل کی تلوار
سری نگر کے خون سے لوگو! جہلم ہے گلنار

وقت پڑے پر مولوی ملّاں حجروں میں جا سوئے
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، دیکھ کبیرا ر وئے

کہاں گئے احرار، کدھر ہیں قوم کے ٹھیکیدار
جس کا کھائیں اسی کا گائیں یہ ازلی غدار

سُن پردیسی! گر تو مانے دل کی بات بتاؤں
مرجاؤں پربھیک نہ مانگوں،ہاتھ نہ یوں پھیلاؤں

بھِک منگوں کی ٹولی بولی آئے ہو بڑے غیور
ان داتا کے دان کو کیسے کر دیں نامنظور

عالمگیرؔ کے بیٹے ہیں یہ، ٹیپوؔ کی اولاد
لالہ جی کے خوف سے رو رو کرتے ہیں فریاد

جان گئی، عزّت لٹوائی، شرم نہ رہ گئی کوئی
سکّھوں کو داماد بنایا، ہندو کو بہنوئی

غیرت ہی کو چھوڑ چکے جب بے غیرت انسان
کس کی بہن اور کہاں کی بیٹی؟ کیسا پاکستان؟

قسمت پھوٹی، ہمت ٹوٹی، ٹوٹ گئی شمشیر
بے غیرت کو ناممکن ہے مل جائے کشمیر

غور کرو تو موت حیات کے جھگڑے ہیں سب ہیچ
ماضی بیچا، حال بھی بیچا، مستقبل مت بیچ

جیب ہے خالی، پیٹ ہے خالی، خالی ہے کشکول
جان گئی، عزت مت جائے، عزت ہے انمول

تم محمود کے بیٹے ہو اور احمد کے فرزند
خون کے دھبے خون سے دھوؤ گر ہو غیرت مند

بھیک مانگنا چھوڑ، چلا اب غیرت کی تحریک
سری نگر بھی دور نہیں، ہے دلّی بھی نزدیک

حیدرآباد ہو، جوناگڑھ ہو یا جموں کشمیر
'جان گئی پر آن نہ جائے 'کہہ گئے بھگت کبیر

رستم ہو، رنبیر بھی ہو اور بڑے بڑے بلوان
عید یہی ہے آن کی خاطر ہو جاؤ قربان

یارب! قوم کے رستے میں آیا ہے کیسا موڑ
خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں ہیجڑے آٹھ کروڑ٭؎

٭۔۔۔۔۔۔جناب شیخ عبداللّٰہ
٭۔۔۔۔۔۔ان دنوں ملک کی آبادی آٹھ کروڑ تھی۔

(نہرو۔علی گفتگو۔ شیخ عبداللّٰہ کی گرفتاری۔ سری نگر میں فائرنگ۔عید الاضحی۔پنڈت نہرو کراچی آئے۔مسٹر محمد علی سے پاک بھارت جھگڑوں خصوصاً کشمیر کے بارہ میں بات چیت ۔سادہ لوح اہل وطن سمجھے کہ اب پنڈت نہرو ہنسی خوشی کشمیر کو پاکستان کی جھولی میں ڈال دیں گے۔پنڈت نہرو نے جاتے ہی کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے کرشیخ عبداللّٰہ کا کانٹا نکال باہر کیا۔یہ واقعہ عید الاضحی کے دنوں میں پیش آیا۔)

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں