اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ455
306۔ اپنے
اندازے میں اَوروں کا نہ اندازہ ملا
اپنے
اندازے میں اَوروں کا نہ اندازہ ملا
عَین
اپنی ذات کے پرزوں کا شیرازہ ملا
زندگی
کی عمر بھر دلچسپیاں قائم رہیں
اس
سفر میں ہر قدم پر موڑ اک تازہ ملا
ذات
میں گم ہو گیا تو واپسی ہو گی محال
وصل
کے نشّے میں فرقت کا بھی خمیازہ ملا
مجھ
کو بھی کچھ تجربہ ہے جرمِ بے تقصیر کا
اپنے
اندازے میں کچھ میرا بھی اندازہ ملا
راہ
چلتوں سے لڑائی پر کمر باندھے ہوئے
راستے
میں ہر قدم پہ ملّا دوپیازہ ملا
بَہ
گئیں ہیں ساری فصلیں آنکھ کے سیلاب میں
کتنی
آسانی سے اب کے گھر کا دروازہ ملا
اپنے
منصب کو سمجھ، پہچان اپنے آپ کو
عشق
ہے تو عشق میں ایمان کا غازہ ملا
دیکھتی
آنکھوں مرے قاتل کو بھی روزِ حساب
مسکراتا،
اینڈتا خلقت کا آوازہ ملا
زندگی
کا زخم بھی مضطرؔ! نرالا پھول تھا
جس
قدر گہرا لگا اُتنا تر و تازہ ملا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں