اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ407۔408
276۔ گھومتا
پھرتا رہے ہے قیس دن بھر گاؤں میں
گھومتا
پھرتا رہے ہے قیس دن بھر گاؤں میں
اس
کا بنگلہ شہر میں ہے اَور دفتر گاؤں میں
شہر
اس کو دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے
وہ
چلا جائے گا تصویریں دکھا کر گاؤں میں
لڑکیاں
ہنسنے لگیں اس کی پھٹی پتلون پر
شہر
کے لڑکے کا اب جینا ہے دوبھر گاؤں میں
رونگٹے
جس سے کھڑے ہو جائیں اہلِ شہر کے
ہم
نے ان آنکھوں سے دیکھا ہے وہ منظر گاؤں میں
اب
وہ اس چکّر میں ہے کہ ابتدا کس سے کرے
ایک
کافر شہر میں ہے، ایک کافر گاؤں میں
شہر
کی سڑکوں پہ جو منڈلا رہے ہیں ان دنوں
اُڑ
رہے تھے کل یہی اجلے کبوتر گاؤں میں
صبح
تک ہوتی رہی آواز کی جنگِ عظیم
رات
بھر لڑتے رہے لفظوں کے لشکر گاؤں میں
جا
چکا ہے تیرا گاؤں شہر کی آغوش میں
اور
تُو بیٹھا ہے اب تک گھر کے اندر گاؤں میں
مَیں
اگر ہمسر نہیں ہوں تیرا ہمسایہ تو ہوں
میرا
گھر بھی ہے ترے گھر کے برابر گاؤں میں
آئنوں
کے ٹوٹنے کا اب کوئی خطرہ نہیں
آئنے
سب شہر میں ہیں اور پتھر گاؤں میں
ایک
ہی ریلے میں مضطرؔ! بَہ گئے ان کے محل
اب
بھی ہے زندہ سلامت میرا چھپّر گاؤں میں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں