اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ395
266۔ کوئی
شکوہ، کوئی گلہ کر لیں
کوئی
شکوہ، کوئی گلہ کر لیں
آ
غموں کا تبادلہ کر لیں
صبح
ہونے کو ہے، دعا کر لیں
آؤ،
مضطرؔ! خدا خدا کر لیں
یہ
گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی
آج
سجدوں کی انتہا کر لیں
اتنی
معصومیت نہیں اچھی
شیخ
صاحب! کوئی خطا کر لیں
جو
بغل میں چھپا کے رکھّے ہیں
ان
بتوں سے بھی مشورہ کر لیں
آپ
کو اختیار ہے صاحب!
جس
کو چاہیں اسے خدا کر لیں
آپ
ہی جس کے ہوں تماشائی
کوئی
ایسا نہ حادثہ کر لیں
راستوں
سے کہو کہ منزل کا
ہر
طرف سے محاصرہ کر لیں
آنکھ
سے عرضِ مدعا کے لیے
مستقل
اک معاہدہ کر لیں
وہ
جو بستا ہے شہرِ پنہاں میں
اس
کی تصویر گھر بُلا کر لیں
وقت
بے وقت اس کو یاد کریں
اس
کوچھیڑیں،اُسے ''خفا'' کر لیں
ہم
ہیں کوہِ ندا کے بن باسی
لفظ
ہم سے معانقہ کر لیں
منطق
الطیر جاننے والے
پرِ
پرواز کو بھی وا کر لیں
شہر
میں ہے جو بے صدا مخلوق
اس
سے مل کر نہ جی برا کر لیں
جو
بھی دعویٰ کریں، کریں مضطرؔ!
پہلے
اپنا محاسبہ کر لیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں