اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ417۔418
282۔ ساز
آواز میں ڈھل جاتا ہے
ساز
آواز میں ڈھل جاتا ہے
پھول
بن جاتا ہے، پھل جاتا ہے
کتنے
احساس کے انگاروں کو
وقت
کا سانپ نگل جاتا ہے
چوم
لیتا ہے جو پتھر اس کو
موم
کی طرح پگھل جاتا ہے
اشک
یوں چہرہ چھپا لیتے ہیں
جیسے
اک حادثہ ٹل جاتا ہے
چور
دروازے سے گھر کا سایہ
جانبِ
دشت نکل جاتا ہے
دل
میں تصویریں ہی تصویریں ہیں
اور
دل ہے کہ بہل جاتا ہے
عشق
ہو جائے تو حیران نہ ہو
یہ
وہ جادو ہے جو چل جاتا ہے
عدم
آباد کو جانے والا
آج
جاتا ہے نہ کل جاتا ہے
اس
کے انجام سے مایوس نہ ہو
آدمی
گِر کے سنبھل جاتا ہے
رنگ
یوں بزم کا بدلا مضطرؔ!
جیسے
نظّارہ بدل جاتا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں