صفحات

بدھ، 20 جولائی، 2016

298۔ نہ سہی دوست، کوئی دشمنِ کامل اٹّھے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ443۔444

298۔ نہ سہی دوست، کوئی دشمنِ کامل اٹّھے


نہ سہی دوست، کوئی دشمنِ کامل اٹّھے
کوئی ہنگامہ، کوئی نعرۂ باطل اٹّھے

ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو گے کب تک
درِ زنداں نہ کھلے، شورِ سلاسل اٹّھے

دوست احباب، اَعِزّہ و اقارب کے سوا
اتنی فرصت ہی کسے میرے مقابل اٹّھے

شدّتِ شوق تھی یا قحطِ یقینِ کامل
منزل آئی تو نہ پاؤں سُوئے منزل اٹّھے

کتنے سوکھے ہوئے آنسو سرِ مژگاں لرزے
کتنے سَوئے ہوئے طوفاں سرِ ساحل اٹّھے

ہم بھی اظہارِ تمنّا کی اجازت پا کر
منہ سے کچھ کہہ نہ سکے صورتِ سائل اٹّھے

پھر سرِ بزمِ جنوں عہد کے کچھ فرزانے
گھر سے حجت کے لیے آئے تھے، قائل اُٹّھے

جب سے اک محسنِ کاملؐ کا ہے چہرہ دیکھا
پھر کسی اور کے احسان نہ اے دل! اٹّھے

یہ وہ محفل ہے جہاں دیر ہے، اندھیر نہیں
کوئی مایوس نہ ہو، کوئی نہ بے دل اٹّھے

جس سے پوچھو، ہے اُسے دعویٰ وفا کا مضطرؔ!
''بے وفا'' کوئی تو ہو، کوئی تو ''قاتل'' اٹّھے
١٩٥٠ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں