اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ507
342۔ اشک برسے تو اس قدر برسے
اشک برسے تو اس قدر برسے
دُھل گئی ہے زمین اندر سے
پُر سکوں ہیں اگرچہ باہر سے
ڈَھے رہے ہیں مکان اندر سے
ہو کے ناراض دیدۂ تر سے
اشک اکیلا نکل گیا گھر سے
کوئی خطرہ نہیں سمندر سے
ڈر اگر ہے تو دیدۂ تر سے
خشک سالی سی خشک سالی ہے
آنکھ اور بوند بوند کو ترسے!
کوئی اپنا رہا نہ بے گانہ
رات پانی گزر گیا سر سے
کیا تجھے راستہ دکھائیں گے
راہ میں جو پڑے ہیں پتھر سے
کچھ تو خوفِ خدا کرو لوگو!
اس قدر جھوٹ اور منبر سے!
ہے خبر گرم رات مولانا
قرض لینے گئے تھے کافر سے
اپنے سائے سے ڈرتا پھرتا ہے
محتسب احتساب کے ڈر سے
آپ کا اس نے کیا بگاڑا ہے
کیوں خفا ہو رہے ہو مضطرؔ سے
١٩٨٩
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں