اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ508
343۔ اصل کی نقل ہوں، نشانی ہوں
اصل کی نقل ہوں، نشانی ہوں
اک روایت ہوں اور پرانی ہوں
میرا محبوب قادیانی ہے
بخدا مَیں بھی قادیانی ہوں
نام لیوا ہوں عہدِ رفتہ کا
اور اس عہد کا بھی بانی ہوں
جس کو لکھّا گیا ہے صدیوں میں
مَیں وہ تازہ تریں کہانی ہوں
درحقیقت وہی حقیقت ہے
جس حقیقت کا دورِ ثانی ہوں
کیسے سمجھاؤں تجھ کو اپنی بات
تُو زمینی، مَیں آسمانی ہوں
آئنہ بھی ہے تجھ سے شرمندہ
شرم سے مَیں بھی پانی پانی ہوں
جس کو ہر لیکھرام جانتا ہے
مَیں وہی مرگِ ناگہانی ہوں
موت مجھ سے سنبھل کے بات کرے
عشق کی آخری نشانی ہوں
کس کو حاصل دوام ہے پیارے!
تو بھی فانی ہے، مَیں بھی فانی ہوں
لوٹ کر جو کبھی نہیں آتی
مَیں وہ گزری ہوئی جوانی ہوں
دشمنِ جاں کے حق میں بھی مضطرؔ!
مہربانی ہی مہربانی ہوں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں