اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ454
305۔ کیوں
من و تو کی نہ تفریق مٹا دی جائے
کیوں
من و تو کی نہ تفریق مٹا دی جائے
مَیں
اگرمَیں ہو ں تو مجھ کو بھی سزا دی جائے
مَیں
وہ لمحہ ہوں جو گزرا ہے علامت بن کر
مجھ
کو آواز نہ اب بہرِ خدا دی جائے
اب
تو ایمان کو بازار میں لے آئے ہو
اس
کی قیمت بھی لگے ہاتھوں چکا دی جائے
میرا
بھی حق ہے کہ دیوار پہ لکھا جاؤں
میری
تصویر بھی سولی پہ سجا دی جائے
بوجھ
بڑھتا ہی چلا جاتا ہے لمحہ لمحہ
وقت
کی دُھول نہ الفاظ پہ لادی جائے
کتنا
آساں ہے کُھلے شہر میں آنا جانا
کوئی
دیوار تو رستے میں بنا دی جائے
اپنے
انجام کی تصویر بھی لیتے جائیں
بھاگتے
دوڑتے لمحوں کو صدا دی جائے
عقل
اس عہد میں ہے محوِ تماشا مضطرؔ!
کچھ
تو اس عہد کی میعاد بڑھا دی جائے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں