صفحات

منگل، 12 جولائی، 2016

336۔ ایک لکنت سی ہے زبان میں کیا!

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ497۔498

336۔  ایک لکنت سی ہے زبان میں کیا!


ایک لکنت سی ہے زبان میں کیا!
پھر کوئی آ رہا ہے دھیان میں کیا!

روشنی سی ہے جسم و جان میں کیا؟
چاند اُترا ہے قادیان میں کیا!

ہو رہی ہے زمین زیر و زبر
شور برپا ہے آسمان میں کیا

دن میں بھی کچھ نظر نہیں آتا
کوئی روزن نہیں مکان میں کیا؟

کتنی معصومیت سے پوچھتے ہیں
اور بھی لوگ ہیں جہان میں کیا؟

کس کو آواز دے رہے ہو میاں!
''کوئی رہتا ہے اس مکان میں کیا''

روح کے فاصلے ہی کیا کم تھے
آ گئے جسم درمیان میں کیا

فرق اور فاصلہ نہیں کوئی
اس جہان اور اس جہان میں کیا؟

قاتلِ شہر کیوں پریشاں ہے
کچھ کہا ہم نے اس کی شان میں کیا

یہ لہو کی فرات ہے مضطرؔ!
کربلاؤں کے درمیان میں کیا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں