اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ361۔362
243۔ حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے
حقیقت ہے یہ استعارہ نہیں ہے
وہ خود مر گیا، اس کو مارا نہیں ہے
یہ سب اس کے اپنے کیے کی سزا ہے
قصور اس میں ہرگز ہمارا نہیں ہے
وہ قہّار غفّار بھی ہے عزیزو!
پکارو اسے گر پکارا نہیں ہے
دکھایا ہے ہیبت کے ساتھ اس نے چہرہ
سوا اس کے اب کوئی چارہ نہیں ہے
کرو عرضِ حال اس سے تنہائیوں میں
وہ سب کا ہے تنہا ہمارا نہیں ہے
وہی بے سہاروں کا ہے اک سہارا
سوا اس کے کوئی سہارا نہیں ہے
یہ سارا قصور آپ کی آنکھ کا ہے
اگر اب بھی حق آشکارا نہیں ہے
جسے آپ حدِّ نظر کہہ رہے ہیں
فریبِ نظر ہے، کنارہ نہیں ہے
نہیں بولتے ہم، نہیں مسکراتے
اگر آپ کو یہ گوارا نہیں ہے
یہ سب سرزمیں ''سر'' کے اَجداد کی ہے
یہ ٹکڑا زمیں کا ہمارا نہیں ہے
نہ اتنا حکومت پہ اِترایئے گا
حکومت کسی کا اجارہ نہیں ہے
مَیں اپنے خدا کی ثنا کر رہا ہوں
یہ اشکِ ثنا ہے، ستارہ نہیں ہے
وہ سجدہ نہیں، اَور ہی کوئی شے ہے
جسے آنسوؤں نے سنوارا نہیں ہے
اشاروں ہی میں گفتگو کیجیے گا
اگر بات کرنے کا یارا نہیں ہے
ہمیں ہر کسی سے محبت ہے مضطرؔ!
کسی سے بھی نفرت گوارا نہیں ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں