اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ371
250۔ سرِ
عام سب کو خفا کر چلے
سرِ عام سب کو خفا کر چلے
جو کرنا تھا اس سے سوا کر چلے
ترے نام کا تذکرہ کر چلے
فقیروں سے جو ہو سکا کر چلے
نمازِ محبت ادا کر چلے
ہم اپنے لہو میں نہا کر چلے
جو بارِ امانت اٹھا کر چلے
اسے چاہیے مسکرا کر چلے
ترے ساتھ چلنا ہے اس کو اگر
قدم سے قدم تو ملا کر چلے
ہمیں مل گیا دل کا ہسپانیہ
کہ ہم کشتیوں کو جلا کر چلے
سَوا نیزے پر ہو گئے سر بلند
زمینِ وطن کربلا کر چلے
بجا حضرتِ میر فرما گئے
''فقیرانہ آئے صدا کر چلے''
جو چھپ کر بھی مضطرؔ! نہ تم سے ہؤا
وہی کام ہم برملا کر چلے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں