اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ519
354۔ حریمِ
ہجر میں کیسا چراغ روشن ہے
حریمِ
ہجر میں کیسا چراغ روشن ہے
جدھر
اٹھائیں نظر داغ داغ روشن ہے
یہ
کون شعلہ قدم اس طرف سے گزرا ہے
کہ
منزلیں ہیں فروزاں، سراغ روشن ہے
یہ
کس کی یاد میں راتیں سیاہ پوش ہوئیں
یہ
کس کے فیض سے دن کا چراغ روشن ہے
یہ
کس کے حسن سے حصّہ ملا ہے پھولوں کو
یہ
کس کے دم سے چمن داغ داغ روشن ہے
یہ
کس کی آتشِ رُخ کو شراب کہتے ہیں
یہ
کس کے نور سے دل کا ایاغ روشن ہے
یہ
کس کے ہجر میں روتی ہے رات بھر شبنم
یہ
کس کے وصل سے گل کا چراغ روشن ہے
یہ
کس نے نام لیا آفتاب کا مضطرؔ!
کہ
روشنی سی ہے دل میں، دماغ روشن ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں