اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ531
363۔ اوڑھ
لینے کو بدن بھی ہو گا
اوڑھ
لینے کو بدن بھی ہو گا
قبر
بھی ہو گی، کفن بھی ہو گا
ہم
درختوں سے گلے مل لیں گے
ساتھ
وہ رشکِ چمن بھی ہو گا
ہم
سے چھپنے کی بھی کوشش ہو گی
ہم
سے ملنے کا جتن بھی ہو گا
عشق
کی کوئی تو منزل ہو گی
کوئی
تو اس کا وطن بھی ہو گا
کیا
خبر تھی کہ دلِ آوارہ
صاحبِ
دار و رسن بھی ہو گا
کوئی
تو سمجھے گا مضطرؔ کی زباں
کوئی
تو محرمِ فن بھی ہو گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں