صفحات

اتوار، 17 جولائی، 2016

3۔ جاگ اے شرمسار! آدھی رات

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ5۔6

جاگ اے شرمسار! آدھی رات


جاگ اے شرمسار! آدھی رات
اپنی بگڑی سنوار آدھی رات

یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی
باخبر ، ہوشیار! آدھی رات

وہ جو بستا ہے ذرّے ذرّے میں
کبھی اس کو پکار آدھی رات

اس کے دربارِ عام میں جا بیٹھ
سب لبادے اتار آدھی رات

دو گھڑی عرضِ مدّعا کر لے
وقت ہے سازگار آدھی رات

بابِ رحمت کو کھٹکھٹانے دے
میرے پروردگار! آدھی رات

شدّتِ غم میں کچھ کمی کر دے
اب تو اے غمگسار! آدھی رات

کھلتے کھلتے کُھلے گا بابِ قبول
عرض کر بار بار آدھی رات

اپنے داتا کے در پہ آیا ہے
ایک اُمّیدوار آدھی رات

ہوش و صبر و قرار کا دامن
ہو گیا تار تار آدھی رات

میری فریاد کا جواب تو دے
بول اے کِردگار! آدھی رات

بے کسوں کو تری کریمی کا
آ گیا اعتبار آدھی رات

اشک در اشک جھلملانے لگا
میرا قرب و جوار آدھی رات

کس لیے بے قرار ہے مضطرؔ
کس کا ہے انتظار آدھی رات

٭…آدھی کو پنجابی لفظ ادّھی کے معنوں میں سمجھا جائے۔

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں