اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ535۔536
367۔ وہ
نہ تنہا مجھ سے کوسوں دور تھا
وہ
نہ تنہا مجھ سے کوسوں دور تھا
مَیں
بھی ننگے پاؤں تھا، مجبور تھا
مَیں
غزل خواں تھا فقط تیرے لیے
بات
کیا تھی اور کیا مشہور تھا
اس
قدر پھولوں کا پتھراؤ ہؤا
شرم
سے پتھر بھی چکناچور تھا
شیخ
بھی آئے تھے چھپ کر دیکھنے
پردۂ
سیمیں پہ رقصِ حور تھا
لمس
کی لَو سے تھا گدرایا ہؤا
دھیان
کی ٹہنی پہ جو انگور تھا
چل
رہے تھے گٹھڑیاں سر پر لیے
اس
سفر میں ہر کوئی مزدور تھا
وہ
بھی اپنی ذات میں تھا قلعہ بند
مَیں
بھی اپنے آپ میں محصور تھا
عشق
کے حالات تھے بدلے ہوئے
جانے
کیا اللّٰہ کو منظور تھا
تُو
بھی جاتا آگ لینے کے لیے
تیرے
اندر بھی تو کوہِ طور تھا
کوئی
تو تجھ پر بھی پتھر پھینکتا
تُو
اگر اس عہد کا منصور تھا
ہر
کوئی عاشق ہے اپنے آپ پر
اس
سے پہلے تو نہ یہ دستور تھا
غیر
بھی حیراں تھا اس کو دیکھ کر
یار
کے رُخ پر جو مضطرؔ! نور تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں