صفحات

منگل، 5 جولائی، 2016

375۔ گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں!

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ545

375۔ گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں!


گھڑی دو گھڑی تو بھی رولے میاں!
کہیں بجھ نہ جائیں یہ شعلے میاں!

وہ کھل کھیلنے کا زمانہ گیا
یہ دن مشکلوں کے ہیں بھولے میاں!

یہ فرصت بھی شاید نہ پھر مل سکے
جو کھونا ہے جلدی سے کھو لے میاں!

حنا رنگ ہو جائیں گی انگلیاں
یہ رقعہ لہو میں ڈبو لے میاں!

کوئی تو بتائے یہ قصّہ ہے کیا
سرِدار کوئی تو بولے میاں!

مجھے کھینچ لینے دے زنجیرِ عدل
تو کپڑے لہو میں بھگو لے میاں!

اگر ہو سکے تو ہمیں بھی سنا
جو تُو نے کہے رات ڈھولے میاں!

یہ دامن پہ جو خون کے داغ ہیں
اگر دھل سکیں ان کو دھو لے میاں!

کہاں گم تھے مضطرؔ، کدھر دھیان تھا
بڑی دیر کے بعد بولے میاں!

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں