اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ549
379۔ یاد
کی مَے ہے اور پی سی ہے
یاد
کی مَے ہے اور پی سی ہے
چشمِ
ساقی جھکی جھکی سی ہے
تم
کو پایا تو پا لیا سب کچھ
تم
کو پا کر بھی کچھ کمی سی ہے
ہم
بھی احباب سے نہیں ہیں خوش
ان
کو بھی ہم سے دشمنی سی ہے
کہہ
دیا کیا صبا نے پھولوں سے
رُخ
پہ گلچیں کے برہمی سی ہے
یاد
آئی ہے کوئی بزمِ طرب
پھول
کی آنکھ شبنمی سی ہے
اُٹھیں،
ٹکرائیں، جھک گئیں نظریں
اک
خطا جیسے باہمی سی ہے
گُل
کے سائے میں سو گئی شبنم
نیند
کی گود ریشمی سی ہے
رات
رویا نہ ہو کہیں مضطرؔ
ریگِ
صحرا میں کچھ نمی سی ہے
١٩٤٠
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں