صفحات

پیر، 4 جولائی، 2016

380۔ ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ550

380۔ ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے


ان آنکھوں میں جو ہلکی سی لالی ہے
موہ کا میلہ ہے، دل کی دیوالی ہے

جینا بھی گالی، مرنا بھی گالی ہے
ہم نے یہ خلعت خود ہی سلوا لی ہے

کثرت کی بندوق کی یہ جو نالی ہے
نادانو! تم پر ہی چلنے والی ہے

جاگ کہ پیار کا سورج چڑھنے والا ہے
دیکھ کہ اب انکار کا ترکش خالی ہے

کس نے دستک دی ہے اس سنّاٹے میں
باہر جا کر دیکھو کون سوالی ہے

ان سے ملے بغیر نہ واپس جاؤں گا
مَیں ہوں آج اور اس روضے کی جالی ہے

عملوں کی گوں کس کا بیڑا پار ہؤا
مضطرؔ! یہ سب تیری خام خیالی ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں