حصہ فارسی
اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ252۔253
383۔ اے
کہ تُو بندۂ خدا شدہ ای
اے
کہ تُو بندۂ خدا شدہ ای
از
ہمہ بندہا رِہا شدہ ای
شیخ
زہدت را خوب می دانم
پیر
گشتی و پارسا شدہ ای
وقتِ
جلوہ نقاب می پوشی
''بندہ پرور مگر خدا شدہ ای''
تو
زِ روزِ ازل حسین استی
تو
نہ امروز خوش نما شدہ ای
چشمِ
بیدار را شبِ فرقت
اشک
در اشک آئنہ شدہ ای
راہ
گم کردۂ محبت را
دشت
در دشت رہنما شدہ ای
ہم
ربودی قرارِ ما از دل
ہم
سکون و قرارما شدہ ای
تا
حسینے دگر پدید آید
ہمہ
تن شوق کربلا شدہ ای
تُو
بہ صحرائے اعظمِ جاں را
ابر
و بارانِ جانفزا شدہ ای
من
نہ پُرسم چرا محمد علی
در
تپِ عشق مبتلا شدہ ای
٭۔یہ
تک بندی زمانہ طالب علمی میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک طرحی مشاعرے میں پڑھی گئی۔
صدارت محترم عبدالمجیدسالک مرحوم نے فرمائی۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں