صفحات

جمعرات، 31 مارچ، 2016

25۔ گھٹا کرم کی، ہجومِ بلا سے اُٹھی ہے

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ66۔67

25۔ گھٹا کرم کی، ہجومِ بلا سے اُٹھی ہے


گھٹا کرم کی ،ہجوم ِبلا سے اُٹھی ہے
کرامت اک دل ِدرد آشنا سے اُٹھی ہے

جو آہ ، سجدۂِ صبر و رضا سے اُٹھی ہے
زمین بوس تھی ، اُس کی عطا سے اُٹھی ہے

رسائی دیکھو ! کہ باتیں خدا سے کرتی ہے
دُعا ۔جو قلب کے تحت الثریٰ سے اُٹھی ہے

یہ کائنات ازل سے نہ جانے کتنی بار
خلا میں ڈوب چکی ہے خلا سے اُٹھی ہے

سدا کی رسم ہے ، ابلیسیت کی بانگ ِزبوں
انا کی گود میں پل کر اِباء سے اُٹھی ہے

حیا سے عاری ، سیہ بخت، نیش زن، مردود
یہ واہ واہ کسی کربلا سے اُٹھی ہے

خموشیوں میں کھنکنے لگی کسک دل کی
اک ایسی ہوک دل ِبے نوا سے اُٹھی ہے

مسیح بن کے وہی آسماں سے اتری ہے
جو التجا ، دل ِناکتخدا سے اُٹھی ہے

وہ آنکھ اُٹھی تو مردے جگا گئی لاکھوں
قیامت ہو گی ، کہ جو اس ادا سے اُٹھی ہے

امر ہوئی ہے وہ تجھ سے محمدؐ عربی
ندائے عشق ، جو قول بلی ٰسے اُٹھی ہے

ہزار خاک سے آدم اٹھے ، مگر بخدا
شبیہ وہ! جو تری خاک پا سے اُٹھی ہے

بنا ہے مہبط انوار قادیاں ۔ دیکھو
وہی صدا ہے ، سنو! جو سدا سے اُٹھی ہے

کنارے گونج اٹھے ہیں زمیں کے ، جاگ اٹھو
کہ اک کروڑ صدا، اک صدا سے اُٹھی ہے

جو دل میں بیٹھ چکی تھی ہوائے عیش و طرب
بڑے جتن سے ، ہزار التجا سے اُٹھی ہے

حیاتِ نو کی تمنا ۔ ہوئی تو ہے بیدار
مگر یہ نیند کی ماتی ، دعا سے اُٹھی ہے

المحراب سوواں جلسہ سالانہ نمبر لجنہ کراچی۔ جلسہ سالانہ جرمنی ١٩٩١ء


26۔ اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ68۔70

26۔ اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا


یہ نظم ١٩٩١ء میں قادیان کے سفر کے دوران کہی گئی اور جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پڑھی گئی۔

اپنے دیس میں ، اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
جیسی سندر تھی وہ بستی ویسا وہ گھر بھی سندر تھا

دیس بدیس لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں اس کی کتھائیں
میرے من میں آن بسی ہے تن من دھن جس کے اندر تھا

سادہ اور غریب تھی جنتا ۔ لیکن نیک نصیب تھی جنتا
فیض رساں عجیب تھی جنتا ۔ ہر بندہ بندہ پرور تھا

سچے لوگ تھے ، سُچّی بستی ، کرموں والی اُچّی بستی
جو اُونچا تھا، نیچا بھی تھا ، عرش نشیں تھا، خاک بسر تھا

اس کی دھرتی تھی آکاشی ، اس کی پرجا تھی پرکاشی
جس کی صدیاں تھیں متلاشی ، گلی گلی کا وہ منظر تھا

کرتے تھے آ آ کے بسیرے ، پنکھ پکھیرو شام سویرے
پھولوں اور پھلوں سے بوجھل ، بستاں کا ایک ایک شجر تھا

اس کے سروں کا چرچا جا جا ، دیس بدیس میں ڈنکا باجا
اس بستی کا پیتم راجا ، کرشن کنھیا مرلی دھر تھا

چاروں اور بجی شہنائی بھجنوں نے اک دھوم مچائی
رُت بھگوان ملن کی آئی ، پیتم کا درشن گھر گھر تھا

گوتم بدھا بدھی لایا ، سب رشیوں نے درس دکھایا
عیسیٰ اُترا مہدیؑ آیا ، جو سب نبیوں کا مظہر تھا

مہدی کا دلدار محمدؐ ، نبیوں کا سردار محمدؐ
نور نگہ سرکار محمدؐ ، جس کا وہ منظور نظر تھا

آشاؤں کی اس بستی میں ، میں نے بھی فیض اُس کا پایا
مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا ، جس کا میں ادنیٰ چاکر تھا

اتنے پیار سے کس نے دی تھی میرے دل کے کواڑ پہ دستک
رات گئے مرے گھر کون آیا ، اُٹھ کر دیکھا تو ایشر تھا

عرش سے فرش پہ مایا اُتری ، رُوپا ہو گئی ساری دھرتی
مٹ گئی کلفت چھا گئی مستی ۔وہ تھا میں تھا من مندر تھا

تجھ پر میری جان نچھاور ۔ اتنی کرپا اک پاپی پر
جس کے گھر نارائن آیا ۔وہ کیڑی سے بھی کمتر تھا

رب نے آخر کام سنوارے ، گھر آئے بِرہا کے مارے
آ دیکھے اونچے مینارے ، نورِ خدا تا حدِ نظر تھا

مولا نے وہ دن دکھلائے ، پریمی روپ نگر کو آئے
ساتھ فرشتے پر پھیلائے ، سایہ رحمت ہر سر پر تھا

عشق خدا مونہوں پر" وَسّے " پھوٹ رہا تھا نور نظر سے
اکھین سے مے پیت کی برسے ، قابل ِدید ہر دیدہ ور تھا

لیکن آہ جو رستہ تکتے ، جان سے گزرے تجھ کو ترستے
کاش وہ زندہ ہوتے جن پر ، ہجر کا اک اک پل دوبھر تھا

آخر دم تک تجھ کو پکارا ، آس نہ ٹوٹی ، دل نہ ہارا
مصلحِ عالم باپ ہمارا ، پیکر ِصبر و رضا ، رہبر تھا

سدا سہاگن رہے یہ بستی ، جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی
جس سے نور کے سوتے پھوٹے ، جو نوروں کا اک ساگر تھا

ہیں سب نام خدا کے سندر ، واہے گرو ، اللہ اکبر
سب فانی ، اک وہی ہے باقی ، آج بھی ہے جو کل ایشر تھا

جلسہ سالانہ قادیان ١٩٩١ء


27۔ مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ71۔73

27۔ مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے


کبھی اذن ہو تو عاشق در یار تک تو پہنچے
یہ ذرا سی اک نگارش ہے ، نگار تک تو پہنچے

دلِ بے قرار قابو سے نکل چکا ہے، یا ربّ
یہ نگاہ رکھ کہ پاگل سَرِدار تک تو پہنچے

جو گلاب کے کٹوروں میں شرابِ ناب بھر دے
وہ نسیمِ آہ ، پھولوں کے نکھار تک تو پہنچے

کچھ عجب نہیں کہ کانٹوں کو بھی پھول پھل عطا ہوں
مری چاہ کی حلاوت رگ خار تک تو پہنچے

یہ محبتوں کا لشکر جو کرے گا فتحِ خیبر
ذرا تیرے بغض و نفرت کے حصار تک تو پہنچے

مجھے تیری ہی قسم ہے کہ دوبارہ جی اُٹھوں گا
ترا نفخِ رُوح میرے دلِ زار تک تو پہنچے

جو نہیں شمار ان میں تو غرابِ پر شکستہ
ترے پاک صاف بگلوں کی قطار تک تو پہنچے

تری بے حساب بخشِش کی گلی گلی نِدا دوں
یہ نوید تیرے چاکر گنہگار تک تو پہنچے

یہ شجر خزاں رسیدہ ہے مجھے عزیز یا ربّ
یہ اک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے

جنہیں اپنی حبل ِجاں میں نہ ملا سراغ تیرا
وہ خود اپنی ہی انا کے بت ِنار تک تو پہنچے

کسے فکر ِعاقبت ہے ، انہیں بس یہی بہت ہے
کہ رہینِ مرگ 'داتا' کے مزار تک تو پہنچے

ہے عوام کے گناہوں کا بھی بوجھ اس پہ بھاری
یہ خبر کسی طریقے سے حمار تک تو پہنچے

یہ خبر ہے گرم یاربّ کہ سوار خواہد آمد
کروں نقد ِجاں نچھاور ، مرے دار تک تو پہنچے

وہ جواں برق پا ہے ، وہ جمیل و دلربا ہے
مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے

جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٢ء


28۔ جو خدا کو ہوئے پیارے

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ74۔76

28۔ جو خدا کو ہوئے پیارے


یہ نظم اپنی بیوی آصفہ مرحومہ کی یاد میں ١٩٩٢ء میں کہی تھی

نہ وہ تم بدلے نہ ہم ، طور ہمارے ہیں وہی
فاصلے بڑھ گئے ، پر قرب تو سارے ہیں وہی

آ کے دیکھو تو سہی بزم ِجہاں میں ، کل تک
جو تمہارے ہوا کرتے تھے ، تمہارے ہیں وہی

جھٹپٹوں میں اُنہی یادوں سے وہی کھیلیں گے کھیل
وہی گلیاں ہیں ، وہی صحن ، چوبارے ہیں وہی

وہی جلسے ، وہی رونق ، وہی بزم آرائی
ایک تم ہی نہیں ، مہمان تو سارے ہیں وہی

شامِ غم ، دل پہ شفق رنگ ، دکھی زخموں کے
تم نے جو پھول کھلائے مجھے پیارے ہیں وہی

صحن گلشن میں وہی پھول کھلا کرتے ہیں
چاند راتیں ہیں وہی ، چاند ستارے ہیں وہی

وہی جھرنوں کے مدھر گیت ہیں مدہوش شجر
نیلگوں رُود کے گل پوش کنارے ہیں وہی

مے برستی ہے ،۔بلا بھیجو ۔ کہاں ہے ساقی
بھری برسات میں موسم کے اشارے ہیں وہی

بے بسی ہائے تماشا کہ تری موت سے سب
رنجشیں مٹ گئیں ، پر رنج کے مارے ہیں وہی

تم وہی ہو تو کرو کچھ مداوا غم کا
جن کے تم چارہ تھے وہ دَرد تو سارے ہیں وہی

میرے آنگن سے قضا لے گئی چن چن کے جو پھول
جو خدا کو ہوئے پیارے ، مرے پیارے ہیں وہی

تم نے جاتے ہوئے پلکوں پہ سجا رکھے تھے
جو گہر ، اب بھی مری آنکھوں کے تارے ہیں وہی

منتظر کوئی نہیں ہے لب ساحل ورنہ
وہی طوفاں ہیں ، وہی ناؤ ، کنارے ہیں وہی

یہ ترے کام ہیں مولا ، مجھے دے صبر و ثبات
ہے وہی راہ کٹھن ، بوجھ بھی بھارے ہیں وہی

جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٢ء