کلام
محمود صفحہ188۔189
126۔ شاخ طوبیٰ پہ آشیانہ بنا
شاخ طوبیٰ پہ آشیانہ بنا
تا ابد جو رہے فسانہ بنا
عرش بھی جس سے مرتعش ہوجائے
سوزش دل سے وہ ترانہ بنا
فلسفی! زندگی سے کیا پایا؟
حیف ہے گر ترا خدا نہ بنا
لذت وصل ہی میں سب کچھ ہے
اس سے ملنے کا کچھ بہانہ بنا
چھوڑنا ہے جو نقش عالم پر!
کس کمر عزم ِمُقبلانہ بنا
وہ تو بے پردہ ہوگئے تھے مگر
حیف یہ دل ہی آئنہ نہ بنا
دل کو لے کر میں کیا کروں پیارے
تو اگر میرا دلربا نہ بنا
خاک کردے ملادے مٹی میں
پر مرے دل کو بے وفا نہ بنا
گر کے قدموں پہ ہوگیا میں ڈھیر
وقت پر خوب ہی بہانہ بنا
چال عشاق کی چلوں میں بھی
تو بھی انداز دلبرانہ بنا
نعمت وصل بے سوال ہی دے
اپنے عاشق کو بے حیا نہ بنا
جو بھی دینا ہے آپ ہی دیدے
مجھ کو اغیار کاگدا نہ بنا
تجھ سے مل کر نہ غیر کو دیکھوں
غیر کا مجھ کو مبتلانہ بنا
جس کے نیچے ہوں سب جمع عشاق
اپنی رحمت کا شامیانہ بنا
بخششِ حق نے پالیا مجھ کو
کیا ہوا میں اگر بھلا نہ بنا
مجھ سے لاکھوں ہیں تیری دنیا میں
تجھ سا پر کوئی دوسرا نہ بنا
تیری صنعت پہ حرف آتا ہے
توڑدے پر مجھے برا نہ بنا
دل و دلبر میں چھیڑ جاری ہے
ہے یہ اک طرفہ شاخسانہ بنا
دیکھ کر آدمی میں دانہ کی حرص
آج ابلیس خود ہے دانہ بنا
اخبار الفضل جلد 2۔23اپریل 1948ء۔ لاہور پاکستان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں